******جس قوم کےبچے نہیں خوددارو ہنر مند ***اُس قوم سے تاریخ کے معمار نہ مانگو*** تم شوق سے کالج میں پڑھو ،پارک میں جھولو*** جائز ہے غباروں میں اڑو ، تخت پہ جھولو*** پر ایک سخن بند ۂ عاجز کی رہے یاد*** اللہ و رسول کی حقیقت کو نہ بھولو*****مسجدالحرام کے خطبہ جمعہ کو اب اردو زبان میں پڑھئے *** ***مسجدالنبوی کے خطبہ جمعہ کو اب اردو زبان میں پڑھئے *** اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دنیا ئے جدید علمی ترقی اور ٹیکنالوجی کے عروج کے دور میں ہے۔ہر وہ قوم خواہ وہ آج سے تین سو سال پہلے غلامانہ زندگی گزار رہی تھی یا حاکم تھی آج اگر اس کی پہچان ہے تو صرف اور صرف علمی کارناموں کی بدولت ہے۔برطانوی نوآبادیات کے اکثر علاقے آج ترقیاتی دنیا میں اپنے عروج پر ہیں اور بہت سے ایسے ممالک جن کے زیر تسلط کئی دوسرے ممالک ہوا کرتے تھے لیکن وہ کئی لحاظ سے دیگر اقوام سے پیچھے اسی لئے ہیں کیونکہ وہاں علمی میدان میں کوئی ترقی نہیں ہو سکی جسکی مثال سلطنت عثمانیہ ، متحدہ ہندوستان اور رومانیہ کے علاقے وغیرہ ہیں۔اور مستقبل بھی انہیں اقوام کا روشن ہوگا جو علمی میدان میں ترقی کریگا۔ ملک عزیز جمہوریہ ہندوستان کئی لحاظ سے دوسرے اقوام اور ممالک سے بہتر ہی نہیں بلکہ بہترین ہے جس کے وسائل میں سر فہرست جغرافیائی اہمیت، افرادی قوت اور قدرتی وسائل ایسی گراں بہا نعمات ہیں جن پر ساری دنیا رشک کرتی ہے۔اگر عوام میں علمی شعور جاگ جائے اور خلوص دل سے نئی نسل کو علمی راہ میں لایا جائے تو ہمیں آنے والے سالوں میں بیرونی دنیا سے مقابلے سے کوئی روک نہیں سکتا۔لیکن ضرورت ہر فرد کو اپنی ذمہ داری دیانتداری کے ساتھ انجام دینے کی ہے۔ کیونکہ، افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا جس احساس محرو می میں ارض ہندکے اکثر و بیشتر علاقے مبتلا ہیں سرزمین اتر پردیش من حیث القوم اس کرب میں کچھ زیادہ ہی حساس ہو چکے ہیں۔گو کہ اہل علاقہ تعلیمی شعور میں کسی بھی دوسرے علاقوں کی نسبت بہت آگے ہیں اور اسکی واضح مثال یہ کہ یہاں کے لوگ اپنی جائیدادیں اور قیمتی اشیاء، حتیٰ مائیں اپنے زیورات بیچ کر بھی اپنی اولاد کو تعلیم دلواتی ہیں اور اپنے علاقے میں تعلیمی اداروں کی خاص طور پر فنی اور اعلی تعلیمی اداروں کی نا پیدگی کےباوجود ملک کے بڑے شہروں میں بھیج کر بھی ان کی تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں۔اتر پردیش کے طلباءکیلئے ملک کے کئی بڑے شہروں میں مختلف چھوٹی بڑی تنظیمیں اور ادارے کام کر رہے ہیں اور اپنے طور پر بہتر طریقے سے ان کی تعلیم و تربیت کیلئے کوشاں ہیں، لیکن سوائے چند ایک کے اکثر کا ہدف صرف کالج کی سطح تک ہے اور یونیورسٹی سطح کے طلباءکیلئے کوئی خاص ادارہ موجود نہیں جو کہ ان کی صحیح سمت میں رہنمائی کر سکے۔ہر سال سینکڑوں طلباءمیٹرک اور انٹر میڈیٹ پاس کر کے شہروں کا رخ کرتے ہیں، اپنے طور پر محنت مشقت کر کے امتحانات تو پاس کر لیتے ہیں لیکن سرکاری اداروں میں سیٹیں نہ ملنا، جن شعبوں میں سیٹیں ملتی ہوں ان میں دلچسپی نہ ہونا، سفارش اور رشوت کیلئے پیسے نہ ہونا اور اسی طرح کی ان گنت فریادیں لیکر مجبورا ًپڑھائی چھوڑکر نوکری ڈھونڈ نا ، یا ایسے تیسے کر کے نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا جیسے مسائل ہمارے 80فیصد طلباءکی مجبوری ہے۔، لیکن جو کرب مجھ جیسا ایک ادنی طالب علم محسوس کرتا ہے وہ یہ کہ ان تمام معاملات سے گزر کر جو طلباءمختلف اداروں میں زیر تعلیم ہیں وہ اپنی ذمہ داریوں سے صحیح معنوں میں آگاہ نہیں یا اگر آگاہ ہیں تو مخلص نہیں ہیں۔تعلیمی اداروں کی کمزوریاں، نظام تعلیم کو دوش دینا ، اساتذہ و معلمین کی خا میاں گننا تو ہم دوسروں کی دیکھا دیکھی میں سیکھ لیتے ہیں لیکن اپنے وقت ، اپنا مقصد اور اس جذبے کو جس جذبے کے تحت ہمیں اپنے گھروں سے بھیجا گیا تھا ، ہم بھلا دیتے ہیں، نتیجتاً ہماری ذہنی سمت نہ جانتے ہوئے بدل جاتی ہے اور دوسرے ہم مکتبوں کی طرح ساراکا سارا مرکز و محور جاب اور کھیل کود کی جانب مبذول کر دیتے ہیں۔ایسے میں مجبورا ًاس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ۔ شہر میں جا کر پڑھنے والے بھول گئے کس کی ماں نے کتنا زیو ر بیچا تھا یو نیورسٹی کے طلباءکیلئے ایک واضح ہدف کا تعین ہونا ضروری ہے، سب سے اہم یہ کہ طلباءاس بات کو جان لیں کہ ذاتی طور پر وہ کس شعبے کیلئے موزوں ہیں، اپنی صلاحیتیں کہاں اور کیسے استعمال کی جا سکتی ہیں اور کس طرح سے میں اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتا ہوں۔پھر جب سمت واضح ہوگی تو اپنے آپ کو اس کیلئے تیار کریں اوراپنے وقت کو اسی کیلئے مختص کرکے کوششیں کریں۔عزم صمیم اور جذبۂ کامل کے ساتھ کوشش کریں تو کوئی بھی منزل ناممکن نہیں۔ اور ملک و قوم اور معاشرے میں کو ئی تبدیلی بغیر علم و حکمت کے ممکن نہیں، اورصحیح معنوںمیں علم و حکمت اس محنت و مشقت کے بغیر ممکن نہیں جو کہ باہدف ہو۔ ایک موضوع بحث جو کہ انڈر میڈیٹ طلباءبھی اپنے ذہنوں میں لئے ہوتے ہیں وہ یہ کہ اگر ہم سائنس کے علاوہ کسی اور شعبے کو اختیار کریں تو روزگار کہاں ملے گا؟فلاں صاحب نے اتنی تعلیم حاصل کی لیکن نوکری نہیں ملی یا فلاں انجینئیر و ماسٹر ڈگری ہولڈرفلاں کم پوسٹ پرنوکری کر رہے ہیں اور اسی طرح کے بے شمار دوسرے سوالات جن کے پیچھے چند سطحی مثالیں بھی دیتے ہیں، ظاہری طور پر صحیح بھی ہیں۔یہ ہمارے طالب علموں کی غلطی نہیں نہ ان بزرگوں کی غلطی ہے جو بعض ناکام لوگوں کی مثالیں دیکرنئی نسل کی ذہنیت خراب کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ ہمارے معاشرے کا بنیادی نظریۂ تعلیم سے واقف نہ ہونا ہے۔آج کا ہمارا پورا معاشرہ ہی جاب اورئنٹڈ ہوا ہے، بلکہ مقصد حیات ہی پیسہ کمانا،کھلانا پلانا اور جائیدادیں بنانے سے ہی تعبیر ہو کر رہ گیا ہے ایسے میں کون کسے کیسے سمجھائے۔اہل دانش کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور صحیح راہ سے ہمارے معاشرے کو روشناس کرانے کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی میں نہیں سمجھتا کہ پہلے کبھی رہی ہو۔معاشرہ اسی صورت میں علم کو فائدہ مند بنا کرترقی کی راہ پرگامزن ہو سکتا ہے جب حصول علم کی اصل اہمیت سے آشنائی ہو،انسان کو اگر عزت و شہرت ملتی ہے توصرف گاڑی ،بنگلہ اور بینک بیلنس کی وجہ سے نہیں ملتی ،جبتک ہمارے اہل علم و دانش، معلمین و علماءعملی طور پر ان رموز کو طلباءکو باور نہیں کراتے ہم اپنے باصلاحیت جوانوں کو انجینئیرنگ، میڈیکل، کامرس اور منیجمنٹ کے محض کاغذی ڈگریوں کیلئے سرگرداں دیکھتے رہیں گے جس سے معاشرے کی تبدیلی تو دور کی بات خود ان طلباءمیں بھی تبدیلی آنا بھی بہت مشکل ہے۔اور اس بے سمت نسل سے بہتر مستقبل اور معاشرے کی اصلاح و ترقی کے خواب وابستہ کرنا بیوقوفی ہوگی۔اس نقصان کا اندازہ آج سے دس سے پندرہ سال کے اندر ہوگا کہ جب آج کے با صلاحیت مگر خوش فہم ڈاکٹرز و انجینئیرز کے غول ڈگریا ں لئے حیران و سرگرداں نظر آئیں گے ۔آج سے تقریبا ایک صدی قبل اکبر الہ آبادی نے شاید اسی لئے کہا تھا۔۔۔۔ تم شوق سے کالج میں پھلو ،پارک میں پھولو جائز ہے غباروں میں اڑو ، تخت پہ جھولو پر ایک سخن بند ہء عاجز کی رہے یاد اللہ کو ا ور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
خلاصہ پارہ ۱۶ خلاصہ پارہ ۱۷